By Neha Batool
تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے وہ حالات جو آج سے کچھ سال پہلے رونما ہوئے تھے وہ آج بھی ہوئے، پاکستانی سیاست اک نازک موڑ پر آکھڑی ہے، معلوم نہیں کیا جاسکتا ہے؟
۹ مئی عمران خان کی گرفتاری کا دن جسے پاکستان میں ایک سیاہ دن کے طور پر منایا گیا۔میں حسبِ معمول اُس دن بھی اپنی جامعہ میں تھی، تو میرے ہم جماعت نے بتایا کہ عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا ہے، یہ سنتے ہی میرے منہ سے الفاظ نکلے کہ:
مجھے گھر جانا ہے، کیونکہ جلد ہی حالات خراب ہوجائیں گے اور وہی ہوا،راستے بند کردیے گئے اور عوام سڑکوں پر اپنے لیڈر کی گرفتاری پر اپنا ردعمل دکھا رہیں تھے، ایسا تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ عوام کا سمندر سڑکوں پہ نکل آئے اور احتجاج کرے۔دوسری جانب کچھ لوگوں نے عمران خان کی گرفتاری پر مٹھائی بانٹی اورڈھول کی تھاپ پر جشن منایا۔بڑی تعداد میں نکلی ہوئی عوام کو قابو کرنا ایک چیلنج بن گیا تھا۔کتابوں میں چسپاں لفظوں کے مطابق پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ آزادی رائے اوراحتجاج کا حق ہمار ے آئین میں موجود ہے۔لیکن احتجاج کا مقصد ملک کو بچانا ہے نہ کہ جلانا ہے۔ہر مہذب قوم اپنے حقوق و فرائض سے مکمل آگاہ ہوتی ہے، اگر ہمیں اپنے حقوق معلوم ہیں تو عین اسی وقت ہمیں اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہمار ے کیا فرائض ہیں۔ پچھلے تین دنوں سے احتجاج جاری ہے۔عوام کا شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔لیکن ہم تو احتجاج میں اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ہمیں اس ملک کو بھی سلامت رکھنا ہے۔اپنے لیڈر کو بچانے کی کوشش میں ہم اپنے ملک کو جلا رہے ہیں۔جب ملک ہی نہیں رہے گا تو لیڈر کیا کرے گا؟ عوام کا ٹینکوں کو آگ لگانا، ٹائر جلانا کورکمانڈر کے گھروں پر حملہ کرنا،اور وہاں توڑ پھوڑ کرنا،پولیس کا عوام پہ شیلنگ کرنا اور آنسو گیس کا استعمال کرنا، حکومت کا سماجی رابطے کی سائٹ کو بند کرنا یہ سب چیزیں میرے لیے ایک خوف کی سی کیفیت طاری کررہی تھیں،فضا میں ایک مایوسی محسوس کی جاسکتی تھی، عوام کا شدید ردعمل اس مایوسی میں مزید اضافہ کررہا تھ
عمران خان پاکستانی سیاست کے نہایت مقبول ترین اور نڈر سیاسی لیڈر ثابت ہوئے، عوام کا اپنے لیڈر کو لیکر محبت کا جذبہ تب نکھر کر آیا جب عمران خان کو ۵ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔یہ وہ وقت تھا کہ بجائے عوام خوشیاں مناتی وہ سڑکوں پہ نکل آئی، پاکستانی عوام کو بتانے والا کہ، وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں اور کسی کے غلام نہیں ہیں، آزادی رائے کا احساس دلانے والا لیڈر عوام کو بہت عزیز ہوگیا ہے۔عمران خان کی حکومت کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے یہ دکھایا کہ کون کس کے کہنے پر کیا کرتا ہے؟ کیا چیز ہے جو ہم ان آنکھوں سے نہیں دیکھ پارہے لیکن وہ ہے، یہ اسی طرح ہے کہ گھر میں ایک بھوت ہے اور ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کا خوف ضرور ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ لیڈر کرسی کیلئے سیاست کرتے ہیں یا ملک کیلئے؟ یہ جاننے کے باوجود کہ ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں، اور یہ حالات صرف مذاکرات سے ہی ٹھیک ہونگے،تو اس طرح کے بدترین حالات کیوں پیداکیے،کیوں گرفتاری اس طرح کی؟ عدالت،وہ مقام جہاں ہرکوئی اپنے آپ کو محفوظ کرتا ہے، وہاں آکرکسی کو بھی زبردستی گرفتار کرلیا جائے۔ عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا غیر قانونی یہ
ایک سوالیہ نشان بن کے رہ گیا ہے۔اس کے بعد بقیہ پارٹی لیڈرز کو گرفتار کرنا مزید ہنگامی صورتحال کو پیدا کررہا تھا۔
ایک بات یہاں قابل غور ہے کہ بقول شاہ محمود قریشی پاکستان تحریک انصاف کے لوگ اس تباہی میں ملوث نہیں اور ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا پتہ چلایا جانا چاہیے کہ آخر کون ہے جو کورکمانڈر کے گھر پر حملہ کررہا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب انہیں روکنے والا وہاں کوئی بھی نہیں تھا، تو آخر کون ہیں وہ لوگ جو عمران خان کی گرفتاری کے بعد وہاں حملہ کرنے پہنچ گئیں؟