حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریبآ کوئی 1000 یا 1500 سال پہلے فارسیوں کے ہاں اس وقت کے حساب سے ایک نیا عقیدہ آیا تھا جس کا نام لوگ آج بھی دین زرتشت سے یاد کرتے ہیں۔ اس عقیدہ کے مطابق اس کائنات کو چلانے والے دو خدا ہیں جو کہ پہلے سے موجود ایک خدا کے دو بیٹے ہیں۔ پھر کُچھ عرصہ گزرا تو اِن دونوں خداؤں کا باپ مر گیا اور پھر خدائی کا فیصلہ بڑے بھائی کے حصے میں آیا۔ جب کہ چھوٹا بھی اُس خدائیت سے بغاوت کر گیا۔ اب کیوں کہ بڑا بھائی اپنے باپ کی طرف سے چنا گیا تھا تو اس وجہ سے وہ حق پے تھا اور نیکی کا خدا یعنی اہورامرذا کہلایا جبکہ باغی بھائی ایک شیطانی کردار بن گیا اور اہریمن کہلایا۔ سو ان دونوں میں اقتدار کو لڑائی چلتی رہتی تھی تو کبھی ایک مقتدر بن تو کبھی دوسرا۔یعنی اس مذہب میں منبع طاقت(سینٹر آف پاور) طے ہی نہیں تھا۔لیکِن لوگ جلد ہی اس خدائی نظام سے متنفر ہو گئے۔ پھر جلد ہی اُنہوں نے دیگر مذاھب کو اپنانا شروع کر دیا۔
یہ کہانی بتانے کا مقصد اپنے دل میں موجود گداز اورغم کو ہلکا کرنا تھا۔ اور اپنے اس موضوع کو ایک تمہید دینا تھا جو کہ اسی زرتشی نظام خدائی کا پیروکار لگتا ہے۔یعنی ہمارابھی منبع طاقت پہلےدن سے گھر واضع ہے۔ کیوں کہ یہاں پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمّد علی جناح نے اپنے لیے نمائشی طور پے اعلیٰ عہدہ پسند کیا اور پھر سارا ایڈمنسٹریٹو ورک بھی خود اپنی نگرانی میں کرنا پسند کیا۔ جیسے اُنہیں اپنے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان پے یقین ہی نہیں اور اُنکے اختیارات بھی خود سلب کرنا شروع کر دئیے۔ پھر رنجشیں اتنی بڑھ گئی کہ بابائے قوم کو آخری وقت میں ایمبولینس بھی وہ دی گئی کہ جو خود اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ علاوہ ازیں قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلے ہفتے ہی میں دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تبدیل کر دیئے کیوں کہ وہ کُچھ اپنی بات کہنا چاہتے تھے۔ خیر بات کو آگے کی جانب بڑھتا ہوں اور بات کرتا ہوں اس مشہور جگت کی جس میں پاکستان کی جمہوری اقدار کا خوب مذاق اڑایا گیا تھا۔ یعنی اتنی تو میں نے ساڑیاں تبدیل نہیں کی جتنی پڑسیوں نے وزرائےاعظم تبدیل کر لیے ہیں۔1956 تک تو پاکستان کے پاس اپنا کوئی آئین ہی موجود نہیں تھا اور پاکستان ایک ڈومنین سٹیٹ تھی تو اس وجہ سے چلو پہلے والوں کو بندہ معاف بھی کر دے،جو کہ نہیں کیا جانا چاہئے کیوں کہ انہوں نے نظام کی سمت ہی غلط فکس کر دی تھی، تو آگے آنے والی مصیبت مزید مُشکِل تھی اور حال ہی میں بالکل آزاد ہونے والے پاکستان میں پہلا شب خون مارا گیا گیا اور ملک پاکستان آزاد ہوتے ساتھ ہی غلامی کی زندگی میں دوبارہ داخل ہو گیا۔ کیوں کہ جو آئین ابھی ابھی بنایا گیا تھا “رول آف لا” کےلیے تو وہی آئین 1958 میں بیبی بے توقیر ہو گیا۔ یعنی کہ ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا۔ تو پہلے کو ایک اعلانیہ توازن تھا لیجسلیٹر اور دفاعی اداروں میں تو وہ بھی ٹوٹ کے رہ گیا۔ یعنی پاور کا یہ توازن بالکل بگڑ گیا اور صرف ایک ہی پلڑے میں کا گرا اور وہ پلڑا تھا فوجی ڈکٹیٹرکا۔ ابیڈو جیسے کالے قانُون نافذ کر کے مخالفین کو خوب زوردار طریقے سے دیوار سے لگایا۔پھر جب ایوب خان نے تھوڑی بہت جرات کر کے الیکشن کروایا بھی سہی تو سلیکشن کی اور عوامی لیڈرز محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا گیا۔ یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلے الیکشن میں ہی سلیکشن کر کے عوامی رائے کو روند دیا گیا۔ جس سے اپوزیشں کے پاس جو کچھ بھی پاور باقی بچی تھی تو اُنکو غدار قرار دے کر اور اُن پیر ناجائز مقدمے قائم کر کے وہ پاور بھی چین لی گئی۔ پھر جب ذوالقار علی بھٹو نے ایوب خان کو چھوڑا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو عوام ایوب خان کے خلاف کھڑا ہونا شروع ہو گئی۔ عوامی محافل اور جلسوں میں ایوب خان کےلیے اِنتہائی سخت الفاظ کا چناؤ ہونے لگا تو ایوب خان کو تب پاور اپنے ہاتھ سے پھسلتی نظر آئی۔ تو اس نے احتیاطاً اقتدار چھوڑ دیا اور اپنے جانشین یحییٰ خان کو سنوپ دیا۔ جس سے عوامی طاقت دوبارہ ایک اور آئین شکن کے ہاتھ میں آگئی۔ پھر انسانی حقوق کا جو جنازہ مشرقی پاکستان میں اٹھے تو اس سے تو میں شیطان کی پناہ مانگتا ہوں۔ خیر کسی طرح ظلم یحییٰ خان نے 1971 کے الیکشن منعقد کروائے۔ مگر عوامی مینڈیٹ کو دوبارہ روند دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان کے کٹھ جوڑ نے پھر اپنے کرائے گئے الیکشن کے نتائج قبول نہ کیے۔ جس کا نتیجہ ہمیں پھر بنگلادیش کی صورت میں تین ملین کے قریب لوگوں کی جانوں کا ضیا کو صورت میں دینا پڑا۔ یعنی عوامی طاقت کو دبانے کی خاطر ہمیں دو لخت ہونا پڑا۔مختصر یہ کہ مشرقی پاکستان کی عوام پاکستان کے اس ذرتشی خداؤں والے ماڈل سے تنگ آ گئی تھی۔ اور اُنہوں نے آخر کار علم بغاوت بلند کر ہی دیا۔
پھر جب ذوالفقار علی بھٹو صدر اور پھر وزیرِ اعظم بن گئے تو منشور میں شوشلزم کا چورن بیچنے کے بعد نیشنالزیشن شروع کی تو ملک کی ایکونومی کا بھٹہ بیٹھ گیا اور انویسٹر بھی ملک سے بھاگ کھڑا ہوا۔ بھٹو صاحب ایک طرف تو لفٹست بنتے تھے مگر دوسری طرف اُنہوں نے ملاؤں کو خوش کرنے کےلئے اپنے ہی بنائے گئے آئین میں دوسری ترمیم کر کے ایکسٹریم سٹیپ بھی لے کے دکھایا یعنی کے احمدیوں کو کافر قرار دے دیا۔ جبکہ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق ریاست کا کسی کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہر کوئی مسجد مندر یا چرچ جانے کےلیے آزاد ہے۔مگر آئینی ترمیم نے جہاں قائد اعظم کے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی وہیں ریاست نے لوگوں کے ادیان کا تعین کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب طاقت کا سر چشمہ خود کو بطورِ وزیرِ اعظم سمجھنا شروع کیا تو پھر غیر جمہوری طاقتوں نے نظام مصطفیٰ جیسی تحریکیں چلوائی۔ اور پھر اسی آڑ خود کو مرکز طاقت بنا لیا یعنی جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔ پاکستان کو ایک دفعہ پھر 10 سال تک قیامت خیز دور میں سے گزرنا پڑا۔ جس کا ظاہری طور پے مقصد تو پوری ریاستی مشینری کو اسلامیزیشن کےلیے استعمال کرنا تھا مگر پس پردہ امریکہ کا ڈالر کھڑا تھا جو کہ نہ تو اسلامی نظام لانے دے رہا تھا اور دوسری طرف فیس سیونگ کےلیے ضیاء الحق کو اسلام ٹچ بھی دینا تھا۔ اور پالیسی شفٹ چیک کیجئے ذرا کہ بھٹو صاحب کے دور میں سوشلزم اور نیشنالیزیشن کی پالیسی زیرِ استعمال تھی اور طاقت کا سر چشمہ عوامی نمائندوں کا حال یعنی قومی اسمبلی تھی۔ مگر ضیاء الحق کے دور میں سوشلزم کے متضاد اسلامیزیشن اور نیشنلزم کے متضاد پرائیویٹائزشن اور لبریشن آف ایکونومی کی باتیں زیرِ بحث اور کسی حد تک استعمال میں لایا گیا تھا۔ جبکہ عوامی نمائیندوں کی جگہ ایک ڈکٹیٹر تھا۔ تو ایسے میں ملک نے کیا خاک ترقی کرنا تھی۔ پھر محترمہ بینظر بھٹو اور نواز شریف کی آنکھ مچولی ہمیں بتاتی ہے کہ یہ بیچارے تو صرف کُرسی پے بیٹھے ہوتے تھے مگر اصل حکمران تو کوئی اور ہی تھا۔ اور انکی اس آنکھ مچولی سے عوام بھی تنگ تھے تو ایسے میں اس کم پڑھی لکھی قوم نے مشرف کے مارشل لاء کو خوش آمدید کہا اور جمہوری اقدار جو چاہے کمزور تھی اُنکا قتل ہونے دیا۔ پھر امریکیوں کے ڈر سے مشرف ڈیموکریسی کا لبادہ اوڑھ لینا اور عوامی تائید کے بغیر اپنی سفارتی پالیسی میں بڑے بڑے بلنڈر کرنا ملک کےلیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بن جانا اور جنرل کیانی کو ایکسٹینشن کا مل جانا بتاتا ہے اصل حکمران کون تھے۔ خیر زرداری صاحب نے مصلحت کر کے پہلی دفعہ ملک میں اسمبلی کی آئینی مدت پوری کر ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے لازوال کام کیا۔ اس کے بعد میاں صاحب سے ایسٹبلشمنٹ خوش ہوئی اور اقتدار کی کُرسی میاں صاحب کو سونپ دی مگر اقتدار نہیں۔ ملک میں عجیب سا تماشا لگا ہوتا تھا۔ اور پھر اسی دوران ظہیر الاسلام بھی اپنے باغ نیا پودا بُو چکے تھے۔ جس کی فرٹیلائزیشن اچھے طریقے سے کی گئی اور وہ پودا جلد ہی تناور درخت بن گیا اور اس درخت کو خوش قسمتی یہ تھی کہ اسکے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کا پاناما لیکس میں نام آ گیا۔ اور پھر اقامہ بھی نکل آیا اور بیٹے سے تنخواہ نا لینے بھی ایک جُرم ثابت ہو گیا اور میں کی کمر میں خنجر گھونپ کر اُسے 2017 میں وزرات عظمیٰ سے نا اہل کر دیا گیا۔ جو کہ اس تناور درخت یعنی عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی مانا گیا حالانکہ عدالت عظمٰی کا فیصلہ اس بات پر خاموش تھا کہ نواز شریف نے کوئی کرپشن بھی کی ہے یا نہیں؟ بہر حال خوشی کی بات یہ تھی کہ ان سب نا مصائب حالات کے باوجود اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر پائی تھی۔ پھر ظہیر الاسلام مشن بہت خوبصورتی سے تکمیل کو پہنچا اور خان صاحب وزیرِ اعظم بن بیٹھے۔ حالات ابتداء سے ہی خان صاحب کے ہاتھ میں نہیں تھے۔ بجٹ پاس کروانا ہوتا یا کوئی منی بجٹ خان صاحب فیض یاب ہو جایا کرتے تھے۔ 2019 کے دوران سے عمران خان کے خلاف شکنجہ تنگ ہونے لگا اور اُس کا سب سے بڑا سیاسی مخالف اس کے ہاتھ سے نکل کر لندن دوائی لینے چلا گیا۔ اور آج تک واپس نہیں آیا۔ عمران خان سیاسی طور پے اتنے نا بالغ تھے کہ اُنہیں یہ بھی پتہ نہ چلا جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر وہ کتنا بڑا جُرم کر رہے ہیں۔ کیوں کہ خان صاحب کو لگتا تھا کہ اُنکا ایک صفحہ کوئی اتنی موٹی لوہے کی شیٹ سے بنا کہ اُسے کوئی توڑ ہی نہیں سکتا اور جنرل باجوہ اور اُنکا ادارہ ہر صورت میرا ساتھ دیگا۔ مگر اُنہیں یہ بات اسی وقت سمجھ جانی چاہیئے تھی کہ جب اُس وقت کو ساری اپوزیشں نے ایکسٹینشن کےلیے ووٹ کیا،مولانہ فضل الرحمن آزادی مارچ نکال لیا،ٹی ایل پی کا بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاگ گیا اور پاک بھارت کی سکیورٹی سچویشن بھی خراب ہو گئی۔ یعنی یہ ساری ڈیویلپمنٹ کسی وجہ سے ہوئی تھی۔ جیسا کہ انگریزی کا ایک محاورہ ہے۔
“There is no smoke without fire”
مگر عمران خان سے یہ سیاسی گناہ بھی سرزد کروائے گئے۔ یعنی اصل طاقت کا منبع کہیں اور تھا نا کہ وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ میں۔ اور مارچ 2022 تک پہنچتے ہوئے حالات اتنے بدتر ہوتے گئے کہ ایک سیٹنگ پرائم منسٹر ووٹ آف نو کنفیڈنس ہار جاتا ہے اور اسکی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جاتا ہے۔ اور پھر وہ دن اور آج کا دن، ملک میں کوئی گھڑی مثبت خبر نہیں لائی۔ ملک میں سیاسی تقسیم ایک حد سے بڑھ گئی ہے۔ حتٰی کہ اب تو امن و امان کی صورت حال بھی خطر ناک ہوتی چلی جا رہی ہے۔
قارئین کے سامنے پاکستان کی یہ مختصر تاریخ رکھنے کا مقصد ہر گز بھی یہ نہیں ہے کہ آپکو کُچھ واقعات یاد دلائے جائیں اور پرانی یادیں تازہ کریں۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ قارئین اپنے اس زرتشتی خدائی نظام کو سمجھیں اور اپنے اندر شعور پیدا کر کے اپنا حکمران لائیں بجائے اسکے کہ آرہمن جیسی طاقتیں تمہارے اوپر مسلط رھیں اور آپ بھی “ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!” جیسے فارسیوں نے زرتشتی خداؤں سے تنگ آ کر دیگر مذاہب کی طرف دیکھنا شروع کیا تو ویسے ہی شاید اب ہمیں بھی اس دوغلے پن سے متاثر سسٹم کو خیر باد کہہ دینا چاہئے۔ جس میں ہم وزرائے اعظم کو جواب دہ ٹھہرائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں تھا ہی کیا اور جِن کے ہاتھ میں سب کُچھ ہوتا ہے اُنکو شاید ہم نے نا کبھی جواب دہ ٹھہرایا ہےاور نا ہی ٹھہرانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ مگر اب ہمیں اپنے اندر ہمت پیدا کرنا ہو گی۔ اصل جمہوریت کی جنگ خود لڑنا ہو گی