ناکامی سوتیلی ہوتی ہے اور کامیابی کا وارث پورا جہان ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت تھی جس نے مجھے خواب بستر سے بیدار کیا۔ ہلکی مگر تیکھی کانوں کے پردے پھاڑتی ہوئ باریک نسوانی آوازیں میرے کانوں میں گونجی تو آنکھیں کھولے بغیر ہاتھوں کی گول مٹھیوں سے میں نے انھیں(آنکھوں) کو مسلا اور لیٹے لیٹے اپنے تکیے کہ ارد گردچند گرام کہ اس ٹکڑے کو ٹٹولا جس نےآج کل سب کو شعوری یا لا شعوری طور پر اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے۔ کالی سیاہ سکرین پر چمکتا ہوا وقت یہ بتا رہا تھا کہ میس ہال کے مقررہ کردہ اوقات کار کے مطابق ناشتہ ملنے کا وقت ختم ہونے میں صرف تیرہ منٹ باقی تھے۔ چھلاوے کی طرح اچھلتے ہوئےبستر سے باہر قدم رکھا۔ برتن اٹھاے اور دھڑ دھڑ سیڑیاں اترتےہوئےدوسرے ہی لمحے میں میس ہال میں موجود تھی۔ ہوا کہ ایک تیز جھونکے نے مجھے اس بات کااحساس دلایا کہ میرے وجود پر گرم ملبوسات کی کمی تھی۔
کسی روبوٹ کی طرح میں اپنے کام یکے بعد دیگر ختم کر رہی تھی۔ ہاسٹل کی زندگی گزارتے ہوئےآپ منظم اور سلیقہ شعار نہ ہوں تو پھر آپ کبھی بھی ہاسٹل میں رہنے کے قابل نہیں۔ ایک ہی چھت تلے مختلف شعبہ جات ، عادات،روایات اور علاقہ جات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی سنگت میں رہنا ہوتا ہے۔ مکمل تیار ہونے کہ بعد میں نے ایک ستائشی نگاہ خود پر ڈالی تو سامنے والے شیشے سے بغل میں موجود لحاف میں لپٹی خراٹے لیتی ہوئی لڑکی پر نظر پڑی، پھر خیال آیا کہ “مقام” قربانی مانگتا ہے۔
ماں باپ بہن بھائیوں سے دوری بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتی۔ ہاسٹل روڈ پر پیدل چلتے ہوۓ روزانہ اپنے حصے کا پیار میں اپنی ماں سے فون کال پر وصول کرتی ہوں۔ ہاسٹل سے لے کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخل ہونے تک فون میرے کانوں کی أغوش میں ہی ہوتا ہے۔ 15نمبر گیٹ سے باہر نکلتے ہی ایک نئی دنیا کا احساس ہوتا ہے۔شور ،افراتفری ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر أگے بڑھ جانے کی خواہش سڑک پر دوڑتی ہوئی ہر تیز رفتا رگاڑی کی ہوتی ہے۔
موٹر سائیکل سوار تو بڑی چالاقی سے گاڑیوں کی لائن میں سے راستہ بناتے ہوۓ خوامخواہ ٹکراتے پھرتے ہیں۔ خیر سے سڑک کنارے پیدل چلنے والے بھی کندھوں پر اڑھائی کلو کا سر نیچے ہاتھوں میں پکڑے چند انچ کہ کھلونے(موبائل) پر جھکاۓہوۓ چلتے جاتے ہیں۔ برج پر چڑھتے ہوئےاگر کوئی فقیر کسی لڑکے یا لڑکی کو برابر سیڑیاں چڑھتا ہوا دیکھ لے تو جوڑی سلامت رہنے کی دعا دینے لگتا ہے۔ مطلب بے تکا “میرج بیورو” اگر یہ بات کسی کہ دل کو لگ جاۓ تو فورأجیب سے لال نوٹ نکال کر فقیر کی سپرد کر دے گا اور اگر کسی کو فقیر کی یہ دعا گراں گزرے تو پھرفقیر گزرنے والوں کی طرف سے ناشائستہ القابات وصول کرتا ہے۔
جیسے ہی برج کراس کر کہ آپ آئی بی اےوالے گیٹ کی طرف بڑھنے لگتے ہیں توایک چھوٹا سا ٹیڑھا میڑھا تنگ راستہ کوڑے کے ڈھیر کا منظر پیش کرتا ہےکیونکہ مستقبل کی معمار نوجوان نسل گیٹ کہ باہر سے کھانے یا پینے کہ لیے کچھ بھی خریدے تو یہ بات فرض عین سمجھتی ہے کہ کھانے کہ بعد کاغذوں اور چھلکوں کی سلامی برج کے سامنے ضرور پیش کرنا ہو گی۔ ایشیا کی قدیم یونی ورسٹیوں میں سے ایک پنجاب یونی ورسٹی کی دھرتی کو جیسے ہی پیر چھوتے ہیں تو آئی بی اے کی خوبصورت عمارت اور شعبہ ابلاغیات کا مختلف طرح کے لوگوں سے بھرا ہوا لان جنت روڈ پر ہر پیدل چلنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ لان میں بیٹھے لوگ طرح طرح منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کتابی کیڑا معلومات کا ذخیرہ جمع کر رہا ہو گا تو کوئی مائیک اور کیمرہ اٹھاۓ نئی خبر ڈھونڈتا پھر رہا ہو گا۔کہیں ریڈیو پر خبریں پڑھنے والا چیخ رہا ہو گا کہ بلٹن کہاں ہے؟ کوئ کیفے میں بیٹھا خوشگپیوں میں مگن سورج کے ساۓ یعنی (دھوپ)میں کھانے سے لطف اٹھا رہا ہو گا تو کوئ تنہا نکر میں بیٹھا ہوا سیگریٹ سلگاتے ہوۓ ہجر سے بھی بڑے کس غم کی پیشگی کر رہا ہو گا تو کوئی گٹار بجاتے ہوۓ مہدی حسن کو اتنے بے سورے انداز سے گاہ رہا ہو گا کہ مہندی حسن اپنی قبر سے اٹھ کر سر پیٹ کر رہ جاۓ۔ اور کوئی اتنا اچھا سر لگا کہ گا رہا ہو گا کہ آپکو لگے نصرت فتح علی خان ابھی بھی حیات ہے۔ کہیں کلرک کے دفتر کے باہر آپکو طالب علموں کی ایک لمبی قطار ملے گی اور کہیں ہر طرف افرا تفری اور عملہ بالکل چاکوچوبند دستے کی طرح کام کرتا ہوا چست دکھائی دے گا کیونکہ سیمینار ہال میں انڈسٹری سے کوئی سلیبرٹ آئی ہو گی۔
ایک منفرد دنیا، معمول سے ہٹ کر احساس جو چند لمحات کے لیےآپ کو جکڑ لیتا ہے۔
سنسان کاریڈور میں سے گزرتے ہوئےتیزی سے سیڑیاں پھلانگتے ہوۓ جب میں کلاس میں داخل ہوئی تو ہمارے جرمن زبان کے استاد جرمنی سے آۓ ہوۓ جرمن پریس کلب کے پریزیڈنٹ کے ہمراہ ہماری کلاس میں موجود تھے۔ منٹوں اور سیکنڈوں کی ایک لمبی گنتی تک وہ ہماری کلاس میں موجود رہے اور پاکستان و جرمنی کے بہت سارے معاملات اور حالات پر تبادلہ خیال کیا اور بتایا کہ جھوٹی جبریں بنانا ایک عالمی مسئلہ ہے اور پڑھی لکھی قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ انھوں نے طالبعلموں کی طرف سے اٹھاۓ جانے والےپیچیدہ سوالات کا بھی تحمل سے جواب دیا اور کہا کہ پاکستان خوش قسمت ہے جس کی آبادی کا آدھا حصہ نوجوان نسل پر مبنی ہے۔ انھوں نے طالبعلموں سے کہا آپ لوگ دنیا بدل سکتے ہیں اس سب میں جرمنی آپکا ساتھ دے کر خوشی محسوس کرے گا۔ہم خاص کر عالمی ابلاغ کی انڈسٹری میں خواتین کی صحافت میں ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی سے طالبات جرمنی آئیں اور میڈیا کلچر کا تبادلہ کریں۔ ساری گفتگو کے بعد جب ہم پوری کلاس مہمانوں اور اپنے استاد کہ ہمراہ کمرے سے باہر نیچے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے گروپ فوٹو لینے جا رہے تھے تو سیڑیاں اترتے ہوۓ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کہ بعد میں نے اپنے جرمنی کہ معزز استاد عامر رفیق صاحب سے پوچھا کہ اس سب میں خرچہ کتنا آۓ گا؟ تو انھوں نے میرے کان کے قریب اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ سرگوشی کہ انداز میں کہا : بیٹا آپس کی بات ہے 6 سے 7لاکھ تو آرام سے۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا کہ سر آپس کی بات میں نہیں جاؤں گی: کیونکہ ایک ہفتے کا تو دعوت نامہ دے رہے ہیں یہ جرمنی والے اور سات لاکھ روپے! وہ مسکرا دیے۔
جمعہ کے دن ہماری دو ہی کلاسز ہوتی ہیں۔ پھر ہماری اگلی اور آخری کلاس کا وقت ہو گیا جو کہ قابل احترام باپ کہ رتبے پر فائز مسٹر فہد انیس صاحب کی تھی۔ اردو ادب سے مجھے بہت لگاؤ ہے۔ اردو بولنا ، لکھنا، اور پڑھنا میرے پسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے یہی وجہ ہے کہ استاد جی فہد انیس صاحب کے لیے دل میں اضافی عزت ہے کیونکہ انکی کلاس میں میں اردو میں لکھ سکتی ہوں ۔ آپ جی ہمیں میڈیا انڈسٹری میں اردو زبان کا استعمال کرتے ہوئےکیسے خبر کو موثر ،جامعہ اور منفرد بنانا ہے سکھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ ابلاغ میں زبان کا کردار اور اہمیت کو اجاگر کرواتے ہیں۔ اردو کی کلاس آج کی آخری کلاس تھی۔ یہ ایک چھوٹی سی تفصیل تھی میرے آج کے دن کی ۔ باقی دن تو بہت آتے ہیں زندگی میں اور ہر دن ایک نئی کہانی، تفصیلات اور اسباق کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ سلامت رہیں!!