میں جس صحافی کے کالم کا بے صبری سے انتظار کرتا ہوں، جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو دل سے لکھتے ہیں۔ اور جو لکھتے ہیں وہ ذرا ہٹ کر لکھتے ہیں۔
میں بات کر رہا ہوں عالمی شہرت یافتہ معروف اردو کالم نگار وسعت اللہ خان کی۔
وسعت اللہ خان رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے حصول کے لئے کراچی گئے اور فارغ التحصیل ہو کر صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔
وسعت اللہ خان پچھلے تین دہائیوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ بی بی سی اردو کے ساتھ 1991 سے وابستہ ہیں۔ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو، ایکسپریس کے لیے ہفتہ وار اردو کالم لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز پر پروگرام”ذرا ہٹ کے” کے شریک میزبان ہیں۔ وسعت اللہ خان روایتی انداز سے ہٹ کر منفرد انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کو بین الاقوامی سیاست پر عبور حاصل ہے اور اس چیز سے فائدہ اٹھا کر وہ عالمی منظر نامے کو قارئین کے لیے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی ان کو پڑھنے والوں کی کثیر تعداد ہے ۔ وسعت اللہ خان کو عالمی حالات پر گرفت حاصل ہے۔ جو مطالب بیان کرتے ہیں ان پر ان کا مضبوط گرفت ہوتا ہے اور جس موضوع پر لکھتے ہیں حقائق کی تہہ تک پہنچ کر لکھتے ہیں۔ ان کی لکھائی میں ادبی لحاظ سے روانی ہے جو کہ ایک چوٹی کے لکھاری کی علامت ہے۔ وسعت اللہ خان کے کالم سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ وہ ایک نڈر اور بے باک صحافی ہے ہیں۔ جس بھی موضوع پر لکھتے ہیں ، جس کے بارے میں بھی لکھتے ہیں کھل کر تبصرہ کرتے ہیں۔ ان کی تحریر مذہبی، سیاسی اور دیگر تعصب سے مبرا ہے ۔ دیگر صافی جیسے حسن نثار ،اور یا مقبول جان کی طرح وسعت اللہ خان کی تحریر میں جذباتیت کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ وسعت اللہ خان کبھی بھی جذبات کی رو میں بہہ کر کالم نہیں لکھتے ہیں۔ انتی اکثر کالم عالمی اداروں جیسے کہ WHO, UN, Genocide watch, Amnesty international وغیرہ کی رپورٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ ان رپورٹس میں موجود مواد کو آسان انداز میں خوبصورتی سے قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ وسعت اللہ خان ملکی سیاست پر کم لکھتے ہیں۔ دیگر صحافیوں کی طرح سیاست دانوں کے چوہے بلی کے کھیل پر قلم نہیں اٹھاتے ہیں۔ ان کے پاس سیاست سے ہٹ کر بھی کثیرالاتعداد موضوعات ہیں۔ ان کی نظر زیادہ تر عالمی سیاست پر ہوتی ہے، خصوصاً ان ملکوں پر ان کی نظر مرکوز ہوتی ہے جہاں لوگوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہو۔
ان کے کالم سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو تاریخ پر بھی عبور حاصل ہے۔ جن موضوعات پر لکھتے ہیں ان کی تاریخ اتنی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری کو ایک دفعہ پڑھنے پر اس کی تاریخ یاد رہ جاتی ہے۔
ان کے تاریخی نوعیت کے کچھ کالم ہیں جنھیں ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ میس کمیونیکیشن کے طلباء وطالبات کے لیے ان کا ایک شاہکار کالم “صحافی” جو کہ انٹرنیٹ پر موجود ہے، ایک دفعہ ضرور پڑھا جانا چاہیے۔