سارے ملک میں آج چھٹی ہے کیونکہ آج مزدوروں کا عالمی دن ہے جنہیں کبھی مکمل اور جیتا جاگتا نہیں سمجھا گیا ۔ جنہوں نے ہمیشہ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا ہے۔ حویلی اور مونال جیسے مہنگے ریسٹورونٹ سے کھانا کھانے کہ بعد اور برینڈڈ شاپنگ کرنے کہ بعد جن سے خریداری یا لین دین کرتے ہوۓ ہم دس دس روپے کا بھی حساب رکھتے ہیں جگھڑا کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں بارگینگ کرنا ہمارا مذہبی اور اخلاقی حق ہے۔ مگر اپنا مذہبی و اخلاقی فرض کسی کو یاد نہیں۔ مزدور کی مزدوری کی اجرت وقت پر نا ادا کرنے والوں کہ لیے سخت وعید ہے۔ یہاں وقت پر ادا کرنا تو دور کی بات ہے ہم مکمل اجرت دیتے
وقت بھی کوشش کرتے ہیں دو چار سو دبا لیا جاۓ۔
لاری اڈا، جسے اکثر لوگ حوس پرستوں کی جگہ کہتے ہیں، جہاں پر ہر آنے جانے والے کو ہزاروں نگاہیں سر تا پیر سکین کرتی ہیں یہاں تک کہ آپ کو سی ٹی سکین کی خصوصیات پر شک ہونے لگے۔
آپ لاری اڈے قدم بعد میں رکھتے ہیں چار لوگ آپ کے أگے پیچھے آپ کا بیگ پکڑنے کی غرض سے جمع ہو جاتے ہیں اور مختلف شہروں کا نام لےکر پوچھنے لگتے ہیں کہاں جانا ہے۔
اتنی مہارت سے أوازیں لگاتے ہیں۔ گلے میں کالے رنگ کی ڈوری لٹکاۓ، ہاتھوں میں انگھوٹھیاں پہنے جن میں میل پھنسی ہوئ تھی، کلائ پر لال رنگ کا دھاگا باندھے ہوۓ ہاتھ میں رینچ اور ہتھوڑی پکڑےہوۓ ایک شخص اچانک سے گاڑی کے نیچے سے نکل کر باہر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کے انجن کو ٹھیک کرتے ہوۓ گریس دینے کہ دوران اسکے ناخن کالے سیاہ ہو گئے ۔ پسینے نے اسے بے حال کر دیا تھا۔ اتنے میں ایک ٹانگ سے معزور شخص ہچکولے کھاتا ہوا میرے سامنے سے گزرا اور کسی سواری کا بیگ اٹھا کر بس میں رکھنے لگا۔
موٹروے کے ذریعے جانے والی بسوں میں اضافی رش تھا کیونکہ چار لفظ پڑھ کر دفتروں میں کام کاج کرنے والے لوگ یوم مزدور کی چھٹی منانے گھروں کو جا رہے تھے۔
بس کے چلنے میں ابھی وقت تھا اتنے میں ایک بابا جی ہاتھ میں ایک کولر اٹھاۓ بس میں آ گئے، پانی اور ٹھنڈی بوتلیں دستیاب ہیں بتانے لگے۔ گوکہ کوئی ہیڈفونز ، گڑھیاں، چھلے ، پونیاں اور کی چینز بیچنے آیا، تو کوئی گرمی کے موسم میں ٹھنڈی قلفی لے آیا۔۔۔
بس میں سوار ہونے کہ بعد شیشے سے میری نظر سامنے کہ ایک منظر پر پڑی۔ ایک چھوٹا سا پچہ لگ بھگ أٹھ سال کا ہو گا، چاۓ کہ کپ ٹرے میں سجاۓ بھاگنے کہ انداز میں چلتا ہوا آ رہا تھا۔ اسکی حالت زار مجھ سے دیکھی نا گئی، اس سے پہلے کہ میں اتر کر اس کا نام پوچھتی اپنے مالک کی اواز سنتے ہی وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔
دوسری طرف سے دو آدمی سامان سے لدھی ہوئی ریڑھی کے آگے خود کوہلو کے بیل کی طرح ُجتے ہوۓ بامشکل وہ سامان گھسیٹتے ہوۓ لے کر آ رہے تھے۔
لاری اڈے کا ہر ایک ایک منظر جو میں یہاں لکھ نہیں پائی، مجھے یہ کہانی سنا رہا تھا کہ (کر مزدوری کھا چوری) میں نے ہر ایک چہرے پر برسوں کی تھکاوٹ محسوس کی ، وہ آنکھیں جو لوگوں کو گھورتی ہیں ان میں بہت سارے نا پورے ہونے والے خواب، مایوسی، بغاوت ،اور رزق کمانے کی امید دکھائی دی۔
مجھے گاڑیوں اور سیگریٹ کہ دھوئیں سے متاثر ہو کر ختم ہوتی ہوئی زندگیاں نظر آئیں۔ نیند سے چور خون اگلتی لال آنکھیں دکھئی دیں۔ کہیں بوڑھی ہڈیاں ترکھان کی ذمداریاں نبھاتی ہوئی دکھائی دیں۔ شہر میں رش کہ باعث بادامی باغ سے نکل کر بس سبزی منڈی کی طرف سے ہوتے ہوۓ شیراکوٹ کے راستے سےموٹروے پر چڑھنی تھی۔ سبزی منڈی میں مرد تو مرد، عورتیں بھی چھوٹے چھوٹے سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے لگاۓ بیٹھی تھیں۔ مزدور کا دن تھا مزدور مزدوری پر ہی تھا،
۔ بالکل اپنی صحیح جگہ پر تھا جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ مزدوری تو ہوائی روزی روٹی کمانے کا ذریعہ ہے کبہی بھی کہیں سے بھی مل جاۓ گی اور ہو سکتا ہے ملے ہی نہیں۔ اسکی شرط جستجو ہے اور جستجو کے لیے کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔ مزدور کی آمدنی فکس نہیں ہوتی بلکہ فکس آمدنی والوں کی تنخواہوں کا تیس فیصد مزدور کی مزدوری سے کاٹا جاتا ہے۔
یہ تو میں نےلاری اڈا کہ مزدوروں کی زندگی کی ایک انتہائ معمولی اور چھوٹی منظرکشی کی ہے۔ لا تعداد مقامات پر بے تحاشہ مزدور اور انکے کام کی نوعیت دیکھنے کو ملے گی بس ایک آنکھ چاہیے غور کرنے والی، ایک دل چاہیے فکر کرنے والا ۔ان مزدوروں سے محبت کریں! انکے حقوق کا خیال کریں انکے مرتبے کو بہنچانیں۔ اگر فیزیکل محنت کی بنیاد پر ایوارڈز ملنے لگیں تو تمام ڈگری یافتہ لوگ خالی ہاتھوں پھریں دنیا کے سارے ایوارڈز یہ طبقہ تم سے چھین کر لے جاۓ۔ دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک نے مزدور کو اور اسکے کام کو عزت دی زندہ مثال ہمارے پاس پڑوسی ملک چین کی ہے۔
میرے معزز مزدورو! تم اسی طرح میرے لیے اہم ہو جس طرح ایک سپاہی کو فوج میں فوج کا دل کہا جاتا ہے۔ اگر تم آج ہڑتال کر دو؛ تم آج خون کی طرح اپنے کام کی سپلائ بند کر دو تو ملکی گاڑی کا پہیہ جام ہو جاۓ۔
تم سلامت رہو! کاش ہم تماری ترقی اور بہتری کے لیے کچھ کر پائیں۔