سینٹرل سپیریئر سروسز یعنی سی ایس ایس کیا ہےاور اسکا طریقہ کار کیا ہے؟
طلبہ اس کے لیے کتنی کاوشیں کرتے ہیں؟
کتنی محنت درکار ہوتی ہے؟
ہر سال کتنے طالب علم اس میں کامیاب ہوتے ہیں؟
عموماً ایک طالب علم کو اس امتحان میں بیٹھنے کے لیے کتنی رقم درکار ہوتی ہے؟
سی ایس ایس کی فیس کتنی ہے؟ اور اسکے ذریعے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FBSC) سالانہ کتنے پیسے کماتا ہے؟
ایک طالب علم اس امتحان میں بیٹھنے کے لیے خود پر کتنے پیسے خرچ کرتا ہے؟
عموماً لاکھوں روپے کا خرچہ ایک طالب علم پر ہو رہا ہوتا ہے۔سب سے پہلے آپکو کچھ پیپرز پاس کرنے ہوتے ہیں اور اسکے بعد آپ کا انٹرویو لیا جاتا ہے جس میں آپکا سائیکولوجیکل اور فیزیکل ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد ہی آپ مین انٹرویو میں جا کر بیٹھنے کے اہل ہو پاتے ہیں۔اگر 100 طالب علم CSS کا امتحان دیتے ہیں تو اس میں پاس ہونے والوں کی شرح تقریباً 2 سے 3 فیصد کے قریب ہوتی ہے۔ اور باقی تمام طلباء کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر آپ یہ امتحان دیتے ہیں مگر آپ مطمئن نہیں اور من چاہا رزلٹ نہیں آتا تو ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا علمیہ یہ ہے کہ کوئی ادارہ ان طالب علموں کو جواب دہ بھی نہیں ہوتا کہ انھیں کس بنیادپر کم نمبرز دیئے گئے یاں وہ اپنے پیپرز کو” ری کائونٹ” ہی کر وا لیں ۔
ایک ایسا پروسیجر جس میں آپ نے سالوں کی محنت وقف کی اسکے بعد آپ اتنا سوال کرنے کے بھی مجاز نہیں ہوتے کہ آپ کے نمبرز کس حساب سے کاؤنٹ کیے گئے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں کہ قانون ایسے معاملات میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہے؟
آپکا آئین کس طریقے سے اس میں آپکا ساتھ دیتاہے؟
اٹھارویں ترمیم کے بعد آپکے آئین کے آرٹیکال 19-A کے مطابق آپ کسی بھی ادارے سے سوال پوچھ سکتے ہیں اور وہ ادارہ آپکو جواب دہ ہے۔ یہ آپکا ایک بنیادی حق ہے جو آپ کے آئین میں درج ہے۔
اب اگر انٹرویو کے معاملے کی بات کریں تو اس میں بھی طالب علم کو ایک criteria بتایاجاتا ہے کہ وہ کس حساب سے جج کیا جا رہا ہے۔کن وجوہات پر آپکو پاس یاں فیل قرار دیا جا رہا ہے۔
آپکو ان تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا اور مطمئن کروانا ادارے کا فرض ہے۔اور اسکے بعد ادارہ تمام تفصیلات کے ریکارڈ کے لیے ایک ای میل بھی کرتا ہے جس کے اندر ہر چیز کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔
اسکے بعداگر آپکو کوئی شکایت ہے یاں کسی قسم کی کوئی معلومات درکار ہے تو آپکے پاس 30دن کا وقت موجود ہوتا ہے جس میں آپ ادارے سے سوال پوچھ سکتے ہیں۔
اگر آپکو لگے کہ آپکارزلٹ شفاف نہیں ہے اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا گیا تو آپکا قانون آپکو اجازت دیتا ہے کہ آپ اپنے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ میں جا کر ریپیٹیشن دائر کروا سکتے ہیں۔ اسکے بعد آپکے آئین کا آرٹیکل 184بھی موجود ہے جسکے تحت آپ اپنا کیس سپریم کورٹ تک لے کر جا سکتے ہیں۔
آئین کا آرٹیکل27-1 کہتا ہے کہ کوٹہ سسٹم کا قانون اپنی مدت کے آئندہ چالیس سال تک قابل قبول رہتا ہے۔ جسکا یہ مطلب ہے کہ کوٹہ سسٹم جسکی گنجائش آئین کے اندر موجودتھی وہ اب ایکسپائر ہو چکا ہے۔
ادھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کس حساب سے سی ایس ایس کا کوٹہ سسٹم چل رہا ہے اور اب تک یہ اُوپن میرٹ پر کیوں شفٹ نہیں ہوا؟؟؟