لیکچر شروع ہونے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے ۔سوائے آگے کی کرسیوں کے تمام کرسیاں خالی تھیں۔ میں آخری کرسی پر بیٹھا لیکچر شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا ۔سمسٹر بریک کے بعد میں پہلا لیکچر لینے لگا تھا ۔چھٹیوں میں رات دیر سے سونے اور دوپہر کے وقت اٹھنے کی عادت ہوگئی تھی ۔آج رات بھی دیر سے ہی سویا تھا لیکن صبح جلدی اٹھنا پڑا ۔نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے کلاس میں مجھ پر نیند طاری ہو رہی تھی ۔چونکہ لیکچر شروع ہونے میں کوئی 20 منٹ تھے اس لیے میں نے سر میز پر رکھ کر سونے کا ارادہ کرلیا ۔
برابر میں بیٹھے طالب علم کے چٹکی کاٹنے پر میری آنکھ کھلی تو پوری کلاس کو کھڑی دیکھ کر خود بھی ہر بڑا کر کھڑا ہوگیا ۔غالباً کلاس میں ٹیچر کی آمد ہوئی تھی ۔نیند سے اٹھنے کی وجہ سے آنکھیں دھندلی پڑ گئی تھی ۔ میں اب تک ٹیچر کو دیکھ نہیں پایا تھا۔ نیند دور کرنے کے لیے میں آنکھیں ملنے لگا۔ اسی لمحے میرے ذہن میں بات آئی کہ” پچھلے پورے سمسٹر میں ایسا نہیں ہوا کہ ٹیچر کے آنے پر کبھی ہم کھڑے ہوئے ہو، وہی کلاس ہے ،وہی طلباء ہیں۔ لیکن سب کے روش میں یکدم اچانک تبدیلی کیسے ؟؟” میں آنکھیں ملتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا ۔
اب میری آنکھیں صاف ہو چکی تھیں اور میں سامنے کا منظر صاف دیکھ پا رہا تھا ۔
میں نے کلاس کے سامنے ٹیچر کو کھڑے پایا ۔یہاں میں ٹیچر کی تصویر آپ کو پیش کرنا چاہوں گا ۔قد تقریباً پانچ فٹ سات انچ ، عمر تقریبا 35 سال ،خوش
شکل چار انچ کی داڑھی ۔۔۔مزید چہرہ نکھار رہی تھی۔ سفید شلوار قمیص کے ساتھ کالی ویسکوٹ میں ملبوس، سر پر ایک سفید رنگ کی گولی ٹوپی اور غالباً عینک بھی لگائے رکھے تھے ۔سلام لینے کے بعد ٹیچر نے بیٹھنے کا کہہ دیا ۔سر نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمیں اس سمسٹر میں اسلامیات پڑھائیں گے۔ مزید گفتگو ہوئی تو انکشاف ہوا کہ ماشاءاللہ سے سر مولانا بھی ہیں۔ خیر جس طرح سے ہر نئے سمسٹر کے پہلے دن ہوتا ہے کہ ٹیچر اپنا تعارف کراتا ہے اور اپنی کلاس کے حوالے سے اصول و ضوابط بیان کرتا ہے ۔سر نے بھی اپنے اصول بیان کیے اور طلباء سے یہ چاہا کہ وہ ان پر عمل پیرا ہوں تاکہ کلاس میں اچھا ماحول قائم رہے۔ اپنی بات ختم کر کے سر نے طلباء کو موقع دیا کہ اگر کسی نے کچھ کہنا ہو ،کوئی اظہار خیال کرنا ہو تو اجازت ہے ۔
میں آخری کرسی پر بیٹھا دعا مانگ رہا تھا کہ آج سر کچھ نہ پڑھائیں اور لیکچر یہیں ختم کر دیں۔ اسی لمحے آگے کی صف سے ایک طالب علم کھڑا ہوا ۔کہنے لگا” سر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں “سر نے اسے اجازت دی ۔کہنے لگا” سر بطور طالب علم میری ایک خواہش ہے “۔ ” میں سوچنے لگا کہ لڑکے کی کیا خواہش ہوگی ؟؟ ذرا دھیان سے سننا پڑے گا ۔ سر نے کہا “جی بیٹا! آپ کی کیا خواہش ہے؟؟”۔ نہایت سنجیدہ انداز میں لڑکے نے کہا” سر چونکہ آپ اسلامیات پڑھا رہے ہیں، یعنی دین پڑھائیں گے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس طرح سے پڑھائیں کہ جو ہم پڑھیں وہ نمبر اور امتحانات تک محدود نہ رہے ۔بلکہ ہم انہیں اپنی عملی زندگی میں بھی بروئے کار
لا سکیں “۔ سر نے کہا تم نے بات اچھی کی ہے۔ ذراتفصیل میں بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو؟” میں پیچھے بیٹھا ایک مرتبہ پھر اپنے ہوش تازہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ تاکہ میں بھی تفصیل سے بات سن سکوں کیونکہ مجھے بھی یہ بات اچھی لگی تھی ۔
طالب علم کہنے لگا ” سر آج تک جو کچھ میں نے اور تقریباً تمام طلباً نے اسکول اور کالج میں پڑھا تھا وہ سب نوٹس، اسائنمنٹ ،نمبر اور امتحان تک محدود رہ گئے ہیں ۔جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اس کا عکس ہماری زندگیوں میں ہے ہی نہیں ۔جو بھی پڑھا ہے ان کا عمل کہیں نظر نہیں آرہا ۔سر! مثلًا ؛ہم نے فزکس میں نیوٹن کے لاز پڑھے، یاد بھی کرلیے، امتحانات میں نمبر بھی آگئے لیکن آج تک وہ کسی عمل میں نہیں آیا ۔مطالعہ پاکستان میں ہم نے اقبال اور جناح کے کردار کو پڑھا۔ پاکستان بنانے کے لیے ان کی کوشش، محنت اور تکالیف و رکاوٹ کے بارے میں پڑھا لیکن ملک بچانے کے لئے، ملک چلانے کے لئے ان کے کردار کا ہم پر کوئی اثر نہیں۔ سر! ہمیں اسلامیات میں پڑھایا گیا ۔جھوٹ نہ بولو ،وقت پر نماز پڑھو، اپنی ذمہ داریاں پوری کرو، دوسروں کے حقوق پورے کرو وغیرہ وغیرہ ۔سر! ہم نے یہ سب پڑھ تولیا، امتحانات بھی پاس کرلیے ۔ لیکن عملی زندگی میں ان پر عمل پیرا نہیں ہوسکے۔ سر! میں صرف اپنی بات نہیں کر رہا۔ جو میراحال ہے وہی حالت تقریباً پورے پاکستان میں ہے۔ سر! اب میں اس روایتی انداز سے تنگ آگیا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ جو پڑھائیں وہ اس طرح سے پڑھائیں کہ ہم ان پر عمل پیرا ہو سکے ۔پڑھانے والا ہی عمل کرنے کی بھی تلقین کر سکتا ہے “۔
سر نے اس بات کی تائید کی اور یقین دہانی کرائی کہ انشاءاللہ ہم اسی طرح ہی پڑھیں گے ۔ لیکچر کا وقت ہوگیا ۔اب میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ واقعی میں جو کچھ پڑھا ہے۔
سب کچھ کتابوں میں ہی بند ہے ۔۔۔سب کچھ کتابوں میں ہی بند ہے ۔
حسنین شگری ۔۔۔۔