آج ہم ایک بہت ہی دلچسپ عنوان پر بات کرنے والے ہیں جسے عام طور پر طنز و مزاح کی روح سے تو دیکھا جاتا ہے مگر در حقیقت یہ حساس گفتگو ہے۔ آپ لوگ لفظ پولیگیمی سے واقف ہوں یاں نہ ہوں مگر اس کے معنی سے با خوبی واقف ہوں گے۔ دیکھا جائےتو پولیگیمی کی مثال اسلامی ممالک میں کافی حد تک پائی جاتی ہے۔
یہ لفظ کیسے وجود میں آیا اور دنیا کے مختلف مذاہب اور ممالک میں پولیگیمی کے متعلق کیا رائے ہے؟
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم یہ بات کیوں کر رہے ہیں تو چلیئے آپکو بتاتے ہیں کہ انگریزی اصطلاح کے لفظ پولیگیمی کو اردو میں “ازدواجیات” یاں “کثرت ازواج” سے جانا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایک سے زائد شریک حیات رکھنا۔ گیمی کا مطلب شادی ہے اسی طرح کثیر الزواج کے لئے پولیگیمی کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یعنی فرد کا ایک سے زائد شادیاں کرنا۔ یقینأ آپ سب کو بھی اپنے آس پاس اس کی بہت سی مثالیں ملیں گی۔
اگر ہم دنیا کے سب سے بڑے کنبے کا ذکر کریں تو آپکو بتاتے ہیں کی زیونا چنا نامی شخص اپنی 39 بیویاں ، 94 بچوں ، 14 بہووں اور 33 پوتوں کے ساتھ ہندوستان میں مقیم ہے۔ گاؤں کا سب سے بڑا مکان ان کا ہے ، جس میں 100 کمرے ہیں۔ 1942 میں زیونا چنا نے ایک عیسائی فرقہ تشکیل دیا جس کے ذریعہ وہ اپنی خواہش کے مطابق زیادہ سے زیادہ بیویاں لے سکتے ہیں۔ اتنے بڑے کنبے کے ساتھ زیونا خوشی محسوس کرتے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ انکاخاندان ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور محبت کے ساتھ رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں میڈیا کو بتایا کہ وہ اب بھی اپنی اگلی بیوی کی تلاش میں ہیں۔
علم نفسیات کی روح سے دیکھا جائے تو یہ ایک طرح کا فوبیا، ڈر یا خوف ہے جس میں فرد ایک شادی، نکاح یاں کسی ایک فرد کے ساتھ منسوب ہونے سے خوف کھاتا ہے۔ جسے گیمو فوبیا کہا جاتا ہے۔
مغربی معاشرے میں عموما زیادہ تر مرد اس خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی سے پہلے کونسلنگ کا کوئی رواج نہیں۔ شادی سے متعلق جہاں بے شمار مسائل موجود ہیں وہاں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فیصلہ سازی بڑوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور پہلے سے ہی ایک کمیونیکیشن گیپ موجود ہے۔ تو ایسے مسائل پر گفتگو میسر ہی نہیں ہو پاتی۔
پولیگیمی میں دو طرح کا concept پایا جاتا ہے، پولیگینی اور پولی یینڈری۔ پولیگینی میں مرد ایک وقت میں ایک سے زائد شادیاں کرتا جبکہ پولی یینڈری میں عورت ایک سے زائد ازدواجی رشتوں میں منسلک ہوتی ہے۔
لفظ پولیگیمی کی تاریخ یونانیوں نے رکھی،بلکہ یوں کہنا بلکل غلط نہ ہو گا کہ پولیگیمی قدیم یونانی کیڑے کا نام ہے۔
کئی ثقافتوں میں مانا جاتا ہے کہ مرد جتنی شادیاں کرے اتنا ہی کامیاب اور طاقتور ہوتا ہے۔ مغرب کی کئی ریاستوں میں غیر تحریری قانون کے مطابق ، مرد ایک وقت میں جتنی خواتین کو معیاری زندگی مہیا کر سکتا، اتنی خواتین سے شادی کرسکتا ہے۔
عیسائیت کےمذہب پر ہم غور کریں تو اس میں شروعاتمیں پولیگمی بالکل قابل قبول نہیں تھی۔ لیکن اب کچھ عیسائ پولیگیمی کےمفہوم پر خاموش ہیں۔
اس کہ علاوہ اگر ہم دنیا میں نظر دوڑائیں تو پولیگامی کچھ ہندووں میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن ہندووں نے اسکو اپنی مختلف ذاتوں کہ حساب سے بانٹا ہوا ہے۔
1955 میں تھائی لینڈ نے پولیگیمی کو اپنے ملک میں قانونی طور متعارف کردیا۔
اور اگر ہم اسلامی مذہب کو دیکھیں تو اسلام میں پولیگینی کی اجازت تو شروع سے موجود ہے۔ جس کی سب سے زیادہ مثال انڈونیشیا میں پائی جاتی ہے۔ اسلام میں قرآن اور احادیث میں مرد کو ایک وقت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اس میں کڑی شرائط موجود ہیں جنہیں پورا کرنا بھی ضروری کہا گیا ہے۔ جن میں سے ایک اپنی پہلی بیوی کی اجازت اور رضامندی شامل ہونا لازم ہے۔ لیکن عورت کو ایک وقت میں صرف ایک نکاح میں رہنے کی اجازت ہے۔ پہلے شوہر کی وفات یا طلاق کی صورت میں عورت اپنی عدت کا وقت پورا کر کہ دوباری شادی کر سکتی ہے۔ جبکہ کئی مغربی ممالک میں ایسا ضروری نہیں وہاں پولیگینی کے ساتھ پولی یینڈری کا conceptبھی موجود ہے یعنی ایک عورت کا ایک وقت میں ایک سے زائد شادیاں رکھنا۔
اگر ہم پاکستان میں غور کریں تو یہ ہمارے ملک میں بھی پائی جاتی ہے بلکہ ہمارے ہاں بہت سے نامور افراد موجود ہیں جو پولیگیمی کی مثال پر پورا اترتے ہیں۔ جن میں نامور صحافی اقرارالحسن، اداکار عابد علی، معروف کامیڈین عمر شریف، اداکار شبیر جان اور ہدایت کار سید نور سمیت دیگر کئی اور بھی شامل ہیں۔
2001میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے پولیگیمی کے لیے اختلاف ظاہر کیا، ان کے متعلق تمام شادیوں میں برابری نہیں پائی جاتی جسکی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
کینیڈا واحد ایسا ملک ہے جہاں پولیگیمی کے خلاف سخت اقدام اٹھائے گئے ہیں۔ روس میں بھی اس کی نفی پائی جاتی ہے۔ امریکہ کی 49 ریاستوں میں پولیگیمی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
مذاہب اور ازواج مطہرات کے مابین رابطوں کے بارے میں بہت ساری بحثیں کھڑی ہوتی ہیں ، اور مذاہب یا قانون کے ذریعہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس پر پابندی عائد ہے ، یہ خود ایک اور بڑی بحث ہے۔