سفارت کاری ایک ایسا شعبہ ہے جس سے بہت سے دیگر ضابطے جوڑے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ معاشی ضابطے،سیر و تفریحی کے ضابطے،ثقافتی ضابطے وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا سفارت کاری میں ان سب ضوابط کےلیے دروازے کھلے رکھنے چاہیے۔ جہاں ضروری ہو مذہبی طور پر بھی سفارت کاری کے شعبے کو ترقی دی جانی چاہیے۔ جیسا کہ ہماری سعودی عرب،ایران،عراق اور شام سے سفارتی تعلقات ہیں۔ یعنی ان ممالک سے ہماری مذہبی تعلقات کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔اگر ان ممالک سے ہمارے معاشی اور معاشرتی و ثقافتی تعلقات کٹ کر بھی رہ جائیں تو بھی ہمارا ان سے مذہبی تعلقات ٹوٹ نہیں سکتے کیوں کہ ہم مسلمانوں نے ہر صورت حجاز مقدس اور زیارت شہداء کربلا کی زیارت کرنا ہے۔
مگر جہاں مذہبی طبقہ اور کُچھ پرانے بزرگوں کے اقوال آپکی سفارت کاری پر ہمیشہ کےلئے ایک پتھر پر لکیر کھینچ دیں تو پھر میرے خیال میں اس لکیر سے آگے بڑھ جانا انقلاب ہو گا۔پاکستان کی بدقسمتی دیکھیں کہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے اس میں انقلابی تحریکیں تو بہت چلی ہیں مگر کوئی کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کی اصل اور بُنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ تحاریک ہمیشہ مقتدرہ حلقوں کی جانب سے مصنوعی طور پے لانچ کی گئی تھی۔ مثلاً ڈاکٹر طاہر القادری کی انقلابی تحریک،جو کہ نواز شریف کے خلاف لانچ کی گئی تھی،بھی ایک مصنوعی انقلابی تحریک تھی۔ جو کہ مقتدر حلقوں کے کہنے پر شروع ہوئی اور انہی کی جانب سے ختم بھی ہوئی۔ یہ ایک سیاسی مفروضہ ہے آپ اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ اگر تو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب واقعی عوامی نمائدہ ہوتے اور عوام اُنکی پشت پناہی کر رہی ہوتی تو یقین مانیں انقلاب بپا ہو جاتا چاہے مذہبی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہوتا۔
اب میں ایک ایسے انقلاب کی بات کرنے لگا ہوں جس کے بارے میں پڑھ کر آپکو ایک دھچکا تو ضرور لگے گا اور ہو سکتا ہے کہ دھچکا آپ کےلیے نا قابل برداشت بھی ہو۔ میرا یہ ماننا ہے کہ انقلاب صرف ملکوں کی داخلی صورت حال تبدیل ہونے سے ہی نہیں آتے بلکہ یہ ج انقلابات سفارتی سطح پر بھی آ سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک اِنقلاب ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ مڈل ایسٹ کی ریاستوں کی سفارت کاری میں بھی آیا ہے۔اس دن یو اے ای،بحرین اور اسرائیل نے ایک ڈیل سائن کی تھی۔ جس کے تحت ان ریاستوں نے سفارتی تعلقات قائم کیے اور ایک دوسرے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا۔ یہ وہی عربی آج امن پسند بنے ہیں جنہوں نے چار مختلف جگنیں لڑی ہیں اور آخر کار امریکہ بہادر کی ثالثی سے ٹیبل ٹالکس ہوئی اور آج وہی عربی اور اسرائیلی ایک دوسرے کے مشترکہ مفادات ڈھونڈتے ہوئے دوست بن گئے ہیں۔آج ان ملکوں کی دوستی کی وجہ سے دفاعی بجٹ کم اور تجارتی حجم بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔اصل انقلاب اب اسی قسم کی سفارت کاری ہی لا سکتی ہے نا کہ پرانے نظریات اور خیالات۔
نظریے اور خیالات ادیان نہیں ہوتے کہ ان میں گزرتے وقت کے ساتھ ہم اپنے ہم عصر لوگوں کے ساتھ مل کے رہنے کی غرض سے تبدیلی نہیں کر سکتے۔ ان میں تبدیلی نا گزیر ہو جائے تو ہمیں نظریات کو ارتقاء کے مرحلے سے گزار کر ہم عصر لوگوں سے اور عالمی سماج سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ پاکستان بھی اپنی سفارت کاری میں انقلابی قدم اٹھا سکتا ہے اور مناسب وقت پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات نورملائز کر سکتا ہے اور یہی ایک ایسا انقلاب ثابت ہو سکتا ہے جو کہ پاکستانی سفارتکاری میں آئے پچھتر سالہ جمود کی جڑیں ہلا کے رکھ سکتا ہے۔ اگر اسرائیل کے ساتھ انقلابی سفارتکاری کی بات ہو رہی ہے تو ہمیں اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات کا ایک مختصر جائزہ لینا پڑے گا۔
پاکستان ایک ایسی ریاست تھی جو کہ ایک آئیڈیالوجی اور فلسفہ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ آئیڈیالوجی تھی سر سید کی اور فلسفہ تھا اقبال کا۔ آئیڈیالوجی یہ تھی کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور یہ ایک ساتھ میل جول سے نہیں رہ سکتی (حالانکہ مسلمانوں کی حکمرانی میں یہ دونوں اقوام تقریباً ایک ہزار سال تک اکٹھی رہی تھی) عرف عام میں اس آئیڈیالوجی کو “دو قومی نظریہ” کہا جاتا ہے۔اقبال کا فلسفہ یہ تھا کہ مسلمان اپنی خودی کا کبھی سودا نہیں کر سکتا اور کسی غیر کے سامنے جھکنے سے انکاری ہے۔ ایک غیرت مند مسلمان صرف اللہ کی حاکمیت کو قبول کرتا ہے علاوہ ازیں اس مسلمان کو کوئی دوسرا حاکم قابل قبول نہیں۔ اور اس نظریئے ضرورت کے تحت پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہا گیا اور آئین پاکستان میں قرارداد مقاصد کو بنیادی حثیت دی گئی۔یعنی جب تک حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی تو تب تک مسلمانوں کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ الگ قومیں ہیں۔ مطلب غرض اقتدار کی تھی۔ ایسا ہی معاملہ کُچھ اسرائیل کے ساتھ بھی ہے۔ یعنی جیسے ہم نے دو قومی نظریہ اور پھر اقبال کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر ایک الگ وطن حاصل کر لیا تو ویسے ہی تیل اویوت (طلابیت) کے یہودیوں نے بھی اس دور میں یہی مطالبہ رکھ دیا کہ ہمارے یہودی اکثریتی علاقوں کو ایک الگ وطن بنا دیا جائے۔جس میں یہودی حضرات الگ سے رہ سکیں۔ تو اس عمل میں انکی مدد کو کچھ اس وقت کے امیر غیر مسلم ممالک (امریکا+برطانیہ) آ گئے اور انہوں نے اسرائیل کو ایک ریاست کا عملی جامہ پہنا دیا۔ یوں اسرائیل بھی وجود میں آ گیا۔
کیوں کہ ہمارا ٹاپک پاکستان اور اسرائیل کا ہے تووقت کے تناظر میں دیگر ممالک کو زیرِ بحث رکھنا مشکل ہوگا۔ جیسے ہی اسرائیل کا وجود عمل میں آیا تب اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ گرین نے پاکستان کے بانی کو خط لکھا اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا. اس خط کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔اسی روز پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی اور دراڑوں کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد کے تعلقات کو دیکھا جائے تو پاکستان اور اسرائیل میں مخفی تعلقات تو ضرور رھے ہیں مگر اعلانیہ طور پر کبھی دونوں ریاستوں نے دعویٰ نہیں کیا۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ تعلقات مثبت تھے یہ منفی۔اگر پاکستان اور بھارت کی1965 کی پہلی جنگ کو دیکھا جائے تو اسرائیل نے بھارت کو کھل کر سپورٹ کیا اور پھر 1967 سعودیز اور اسرائیل کی جنگ میں پاکستان نے سعودیز کو سپورٹ کیا اور حتٰی کہ اپنی ایئر فورس کو بھی میدان جنگ میں اتارا۔ اور اس کے بعد 1971 کی پاک بھارت جنگ میں اسرائیل نے ایک دفعہ پھر بھارت کو معاشی و ملٹری سپورٹ دی۔ یوں بھارت اور اسرائیل میں ایک اعتماد کی فضاء پیدا ہو گئی۔پاکستان سے اسرائیل بہت دور ہوتا چلا گیا۔ مگر پھر یوں ہوتا ہے کہ سوویت یونین افغانستان پر 1979 میں حملہ آور ہو جاتی ہے اور پاکستان نے خود کو بہت غیر محفوظ پایا۔ اور پاکستان کو ڈر تھا کہ کہیں سوویت یونین کا اگلا ممکنہ حدف پاکستان ہی نہ ہو۔پھر امریکا بہادر بھی میدان جنگ میں کود پڑتا ہے۔ کیوں کہ امریکا کو بھی افغانستان میں اپنے مفادات نظر آ رہے تھے۔اسرائیل کا تو آپ سب کو پتہ ہی ہو گا کہ امریکہ بہادر کا ہرحال میں ایک اتحادی ہوتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل انٹیلیجنس شیئرنگ کیلئے افغانستان میں امریکا کے دشمن سوویت یونین کی مخبری کرنے لگا۔یوں پتہ یہ چلتا ہے کہ امریکا کی خاطر اسرائیل اور پاکستان اپنی تحفظ کےلئے ایک ہی پیج پر تھے کہ ہر صورت سوویت اتحاد کو افغانستان سے بھگانا ہے۔ اس مقصد کےلئے اسرائیل اور پاکستان کی انٹیلیجنس اداروں نے مل کر کام کیا۔ اور یہی باضابطہ مخفی مشن تھا جو کہ اسرائیلی اور پاکستان انٹیلیجنس نے مل کر کامیاب بنایا۔ اس آپریشن کو تاریخ میں “آپریشن سائیکلون” کہا جاتا ہے۔ اس آپریشن کے چار بنیادی پلیئرز تھے جو کہ سی آئی اے،ایم آئی سکس،موساد اورآئی ایس آئی تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں ایک اور جنگ 1999 میں ہوئی اور پھر ایک دفعہ اسرائیل بھارت کو سپورٹ کرتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات میں بہت زیادہ حد تک گرم جوشی تقریباً 1992 میں آئی تھی۔ اور اس وقت اسرائیل نے بھارت کو جنگی سازوسامان مہیا کیا حالانکہ بھارت کو اس وقت ویسٹ جنگی سازوسامان دینے سے انکار کر چکا تھا اور پھر بھارت نے اسرائیل کو بہت زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی۔ اور بھارت کی اسرائیل کے ساتھ ایسے مثالی تعلقات کی وجہ سے بھارت کو یو ایس اے اور ویسٹ میں ایک منفرد مقام اور شناخت ملی اور بھارتی سفارت کاری کی تاریخ میں نظردوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نوے کی دہائی کے دوران ہی بھارت نے اسرائیل کو گرم جوشی سے سفارتی طور پر گلے لگا کر بڑا چھکا مارا۔نئے ویسٹرن بزنس پارٹنرز بنانے میں کامیاب ہوئے اور پھر بھارت کا میڈیا مغربی ذرائع ابلاغ میں بہت گہری جڑیں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ حتٰی کہ بھارتی میڈیا کا ایک بیچا گیا بیانیہ کہ اسلام ایک دہشت گرد مذہب کو ویسٹ میں تقویت ملی۔ اور پھر اسی دورانیہ میں پاکستان میں دہشت گردی اپنے عروج پر جا رہی تھی۔اور یہی وجہ بنی کہ بھارتی میڈیا کا بنایا گیا بیانیہ بھی مزید مقبولیت پکڑ گیا کہ نا صرف اسلام ایک دہشت گرد مذہب ہے بلکہ پاکستان بھی دہشت گردوں کو سپانسر کرنے والا ایک ملک ہے۔ اور اسی دوران پاکستان اپنا تشخص کھوتا چلا گیا اور پھر آج بھی دنیا کی پیدا کردہ بلیک لسٹوں کا شکار بن گیا اور کہیں گرے لسٹوں کا۔
ایسا نہیں کہ پاکستان نے اسرائیل کے قریب ہونے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ پاکستان نے بھی کئی دفعہ کوشش کی ہے اسرائیل کے نزدیک ہو۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ کوششیں کی گئی۔سوویت اتحاد کے خلاف موساد اور آئی ایس آئی کو ایک ساتھ کام کرنے کا موقع دیا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی اسرائیل کے حوالے سے واضع کی گئی پالیسی سے انحراف کیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسی کوششیں کی گئی۔کہا جاتا ہے کہ خورشید قصوری پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ تھا جس نے اسرائیل کی سرزمین پر پاؤں رکھے۔ جو کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات جوڑنے کی طرف ایک اور مخفی قدم تھا۔یہ تو ایک مختصر سی کہانی تھی پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی جس کو ابھی تک میں نے مذہب کے خیالات سے آزاد گفتگو بنایا ہے۔
پاکستان عصر حاضر میں بہت سے مسائل سے دو چار ہے۔ پاکستان جِن میں سے کچھ زرعی مسائل ہیں تو کُچھ آبی وسائل سے متعلق ہیں۔ جب کہ اسرائیل نے انہی شعبہ جات میں نا قابلِ یقین ترقی کی ہے۔ پاکستان اگر اپنے زرعی مسائل اور آبی وسائل پر قابو پانا چاہتا ہے تو پاکسان اسرائیل سے تعلقات قائم کر کے اچھے واٹر ایریگیشن سسٹم،اچھی کوالٹی کے بیج اور ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبے میں اسرائیلی معاونت حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان بھی سفارتی طور پر کئی اور مسائل جِن میں بہت سی پابندیاں شامل ہوتی ہیں اُن سے بچ سکتا ہے۔ پاکستان کا دہشت گرد ریاست کا عالمی دنیا کو بھارتی میڈیا اور ریاست کی طرف سے بیچا گیا چورن بھی ختم ہو سکتا ہے اور پاکستان کا ایک سوفٹ امیج بن جائے گا عالمی دنیا کے سامنے۔ پاکستان میں موجود یہودیوں کو ویزا مِلنے شروع ہو جائیں گے تو وہ بھی اپنی مذہبی جگہوں پے جا کے عبادات کر سکیں گے۔
پاکستان اور اسرائیل کے مابین آج تک کوئی باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی اور نا ہی کبھی اسرائیل کو پاکستان سے خطرہ رہا ہے کہ واحد مسلم اٹامک پاور کہیں اُسے نگل ہی نہ جائے تو ایسی بات بھی نہیں ہے کیوں کہ دنیا کی تہذیب نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے۔ پاکستان اور اسرائیل دوست بن جائیں تو فائدہ دونوں ملکوں کو ہو گا۔وہ سفارتی اور معاشی دونوں صورتوں میں ہو گا۔ اگر مڈل ایسٹ،جنہوں نے جنگیں لڑی ہیں اسرائیل سے، وہ بھی تعلقات نورمالائز کر رہے ہیں اور مسلم ورلڈ نے اسرائیل کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے تو پاکستان اکیلا قبول نہ کرنے کے کونسا تیر مار لے گا۔ پاکستان اگر اسرائیل قبول کرتا ہے تو میرے خیال میں قدرے آسان ہو جائے گا پاکستان اور مسلم ورلڈ کےلئے کہ وہ اسرائیل سے بات چیت کریں اور فلسطین کا مسئلہ حل کروایا جائے۔ اگر ہم لوگ بات چیت کے چینلز ہے بند رکھیں گے تو کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کوئی برف پگھلے۔ ہمیں اپنی سفارت کاری کو اسرائیل کے حوالے سے ترکی والا سٹائل کاپی کرنا چاہیے۔ جہاں ضرورت ہو حق اور سچ کیلئے آواز بھی بلند کی جائے اور اپنی تجارت بھی کے جائے۔ اسرائیل کا مسلم ورلڈ کے ساتھ تجارتی حجم اتنا زیادہ ہونا چاہیے کہ جب مسلم ورلڈ کو ضرورت پڑے تو وہ معاشی پریشر کے ذریعے اسرائیل کا بازو مروڑیں۔ کیوں معاشی دباؤ کسی بھی ملک کےلیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ صرف تقرریں کرنے یا پھر پرانی روایت کو قائم رکھنے سے کُچھ نہیں ہونے لگا۔ نا جنگیں نا تقریریں مسائل کا حل ہیں بلکہ مسائل موثر سفارتکاری اور فیصلہ کن مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔