فجر کی أذان ہونے سے قبل ہی سارے گھر والوں کو جگا دیا گیا تھا۔ گھر میں افراتفری مچی ہوئ تھی کیونکہ ابا نے چھوٹی پھوپھی اور بڑی بیٹی کہ ہمراہ گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہونے والی پہلی بس میں جو سوار ہونا تھا۔ اماں چھوٹی پھوپھی اور ابا کے لیے تازہ روٹی بنا رہیں تھیں ساتھ ہی ساتھ دوسرے چولہے پر أگ جلا کر ساگ چڑھا دیا ، جو کہ رات کو تقریباً تیار کر لیا گیا تھا مگر ابھی اسے مذید تھوڑا پکا کر تڑکہ لگانے کی ضرورت تھی۔ ابا نے چاۓ کی پیالی منہ کو لگاتے ہوۓ اماں کو یاد دلایا کہ مکئ کی روٹیاں پکا کر باندھنا مت بھولنا بڑے بھائ صاحب بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ اماں مکئ کی روٹی کو پلٹنے میں مصروف تھیں کہ ابا چولہے کہ پاس آئے چاۓ والی دیگچی سے ایک پیالی چاۓ نکالی اور سامنے پڑی پلیٹ میں چار کیک رکھ کر اندر بڑی بیٹی کے لیے لے گۓ۔ چھوٹا بھائ بڑی باجی کے جوتے پالش کرنے میں مصروف تھا۔ بڑی بیٹی اپنے رات سے استری شدہ کپڑوں پرایک بارپھر سے استری رگڑ رہی تھی
ابا نے چاۓ کی پیالی فاصلے پر پڑے ہوے میز پر رکھی اور پلیٹ سے ایک کیک اٹھا کر چاۓ میں ہلکا سا ڈبو کہ بیٹی کہ منہ میں ڈال دیا۔ بس کہ سٹاپ پر أنے میں صرف 35 منٹ باقی تھے۔ ابا خود کھیتوں کی طرف چلے گۓ اور کماد کہ کھیت میں گھس کر سب سے بہترین أنکھوں کو بھاتے ہوۓ چند گنے توڑے اور لمبے قدم بھرتے ہوۓ گھر أگۓ۔ بغل میں موجود پانی کہ نلکے کی جانب بڑھ گۓ اور کپڑے دھونے والے برش کہ ساتھ رگڑ رگڑ کر گنوں کو دھونے لگے۔ پھر درانتی کی مدد سے گنوں کو کاٹ کر چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کیا اور ایک صاف خالی کھاد کے بورے(تھیلے) میں انھیں ترتیب سے رکھ دیا۔ اتنے میں چھوٹی پھوپھی جو شوہر کی وفات کہ بعد ہمیشہ لے لیے میکے کی ہو کر رہ گئیں تھیں ایک ڈبے میں دیسی گھی اور دوسرے ڈبے میں گھر کا ڈالا ہوا اچار پیک کرنے میں مصروف تھیں۔ بس کا ہارن ہوا؛ بس ہمیشہ گاؤں کے سٹاپ پر أکر پانچ منٹ رکتی تھی۔ ہارن کی أواز سنتے ہی ابا کی پھرتیوں میں اضافہ ہوا۔ منجلے بیٹے کو بس سٹاپ کی طرف دوڑ لگانے کا حکم صادر کیا اور کہا کہ ڈرائیور سے جا کر بولو ہمارے گھر سے ابھی سواریاں أرہی ہیں جاۓ نا۔۔۔
چھوٹی پھوپھی نے ایک ہاتھ میں ساگ اور مکئ کی روٹی والا شاپر اور دوسرے ہاتھ میں اچار اور دیسی گھی والا شاپر پکڑ رکھا تھا۔ جبکہ ابا کندے پر گنوں والا بورا رکھے ہوۓ بھاگتے ہوۓ جا رہے تھے۔ بڑی بیٹی سب سے پیچھے أہستہ أہستہ سوچوں میں مگن بس گی جانب بڑھ رہی تھی۔
کھلی أنکھوں سے خواب دیکھ بیٹھی تھی اسی لیے أنکھوں میں ڈھیروں مایوسی تھی۔ ان تینوں کہ گھر سے نکلتے ہی اماں جاۓ نماز بچھا کر بیٹھ گئیں اور
چھوٹا بیٹا بکری کے بچے کو پکڑ کر دودھ پلانے لگا۔ ابا کی چمکتی ہوئ أنکھیں جہاں بڑی بیٹی کو مزید متحرک کررھی تھیں وہیں وہ مایوسیوں اور ناامیدیوں کہ گہرے سمندر میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ وہ سادہ سا معصوم بھولا بھالا جس پر اس دنیا کے رنگ ڈنگ تو بالکل بھی نہ جھلکتے تھے اس وقت ایسے تندو توانا اور چست لگ رہا تھا جیسے پورے زمانے کا کوئ خزانہ ہاتھ لگنے جا رہا ہو۔ جگہ جگہ بس روک کر بس والے سواریاں اتارتے اور چڑھاتے گۓ۔ پولیس کی چوکی سے تھوڑا أگے نکل کر ہی بس میں مزید رش ہو گیا لوگ کھڑے ہو کر یہاں تک کہ لٹک کر سفر کر رہے تھے جس کی وجہ سے بس میں سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ابا اور چھوٹی پھوپھی تو اسطرح سفر کرنے کہ عادی تھے مگر بڑی بیٹی کا جی متلانے لگا۔ رہی سہی کسر پچھلی سیٹ پر موجود کسی أدمی کی سلگتی ہوئ سیگریٹ نے پوری کر دی۔ بڑی بیٹی کو الٹیاں أنے لگیں، ابا نے کارمینا کی ایک گولی نکال کر بڑی بیٹی کی طرف بڑھا دی۔ چھوٹی پھوپھی نے سیون اپ کا ڈھکن کھولا اور بوتل بھتیجی کہ منہ کو لگا دی مگر اس سب کا بھی کوئ فائدہ نہ ہو۔
أخر کار ان گنت ٹھوکریں کھانے کہ بعد وہ لوگ پاکستان کہ تاریخی شہر زندہ دلان لاہور میں داخل ہو چکے تھے۔ أذادی چوک (یادگار) پر وہ تینوں بس سے باہر ہو لیے اور ابا کھڑے ہو کر کسی سے میٹرو سٹیشن تک جانے کا راستہ پوچھنے لگے۔ گاؤں میں نکر والی گلی کے دکاندار نے سارا ایڈریس سمجھا دیا تھا۔ میٹرو سٹیشن میں داخل ہو کر ٹوکن خریدنے کہ بعد جب سیرھیاں چڑھ اوپر میٹرو کی طرف سوار ہونے کے لیےجانا تھا تو سیڑھیوں پر موجود چوکیدار نے ابا کو روک لیا اور کہا کہ یہ بورا لے کر أپ میٹرو میں سوار نہیں ہو سکتے۔ پھر اس نے بورا کھول کر دیکھا اور ابا کی ڈھیر منت سماجت کہ بعد بورا اوپر لے جانے دیا۔ تینوں میٹرو میں سوار ہو گۓ ۔ جب بھی سپیکر سے خاتون کے بولنے کی أواز أۓ کہ موجودہ سٹاپ یہ ہے اگلا سٹاپ وہ ہے اپنے سامان کی حفاظت خود کریں وغیرہ وغیرہ تو ابا ساتھ کھڑے مردوں سے کہنے لگیں بھائ صاحب یہ کیا اعلان ہو رہا ہے؟ ساتھ ہی ساتھ اپنی جیب پر ہاتھوں کی مضبوطی کو مزید پختہ کر لیں۔ چند سٹاپ أگے بڑھنے کہ بعد میٹرو میں رش بڑھنے لگا یہاں تک کہ دھکے پڑنے لگے۔ جیسے ہی وہ سٹاپ أیا جہاں پر ان تینوں کواترنا تھا تو ابا نے زور سے کھڑکی بجاتے ہوۓ ڈرائیور کو أواز دی (ایتھے لا کہ وئ ) یعنی بھائ صاحب ہمارا سٹاپ أگیا ہے گاڑی روک کر ہمیں اتار دیں۔ ساتھ ہی بیٹی اور بہن کو اشارہ کرتے ہوۓ اونچی أواز سے بولے (ایتھے اترن دی کرو چھیتی چھیتی ایہ بس أپ ائ اگے چل پیندی جے) انٹرویو شروع ہونے میں ابھی وقت تھا اسی لیے وہ لوگ پہلے طایا کی طرف چلے گۓکیونکہ بڑی بیٹی کی طبیعت بگڑنے کہ باعث کپڑے اس حالت کہ نہیں تھے کہ انھیں زیب تن کیے ہوۓ انٹرویو کے لیے جایا جا سکتا۔
ابا کے کپڑے ویسے تو استری شدہ صاف ستھرے تھےجوتے بھی نۓ ہی تھی جو تقریباً چار سال پہلے لیے تھے۔ مگر طایا کے محل نما گھر میں داخل ہوتے ہی بڑی بیٹی بھی ایک عام سی لڑکی دکھنے لگی تھی جسکی ماں کے بقول وہ پورے گاؤں کی لڑکیؤں سے زیادہ پڑھی لکھی اور خوبصورت تھی ۔ طایا ابا کی فیملی نے اس قدر گرمجوشی سے تو اسقبال نہیں کیا تھا جس قدر خوش أمد کی امید ابا نے دلائ تھی۔ بڑی بیٹی نے منہ ہاتھ دھونے کے بعد کپڑے تبدیل کیے، اپنی فائل اٹھا کر باہر أگئ اور کہنے لگی ابا چلیں!! دیر ہو جاۓ گی ورنہ ۔۔۔ ہاں ہاں پتر چھیتی کر ابا نے بوتل کا گلاس نیچے اپنے پیروں میں رکھتے ہوۓ کہا۔ باہر أکر أٹو رکشہ پکڑا اوردفتر کا ایڈریس بتاتے ہوۓ اس میں سوار ہوگۓ۔ بڑی بیٹی کو دفتر میں داخل ہوتے ہی کھلی أنکھوں سے دیکھے ہوۓ خواب چکنا چور ہوتے ہوۓ محسوس ہوۓ۔ مزید دکھ کی بات یہ تھی کہ وہاں پر سوٹڈ بوٹڈ لوگوں کو دیکھ کر اس کا کانفیڈینس لیول زیرو ہو گیا۔
اپنی باری انے کہ انتظار میں وہ سر جھکاۓ بیٹھی رہی۔ انٹرویو دے کر جب وہ باہر نکلی تو ابا اسکے لیے جوس اور بسکٹ لے کر کھڑے تھے اور بڑے اعتماد سے کہنے لگے مجھے پورا یقین ہے وہاں پر میری بیٹی سے زیادہ اچھا انٹرویو کسی بھی اور کا نہیں ہوا ہو گا۔ بڑی بیٹی نے بڑے ڈیڈ ایکسپریشنزدیے اسے سمجھ ہی نا أیا کہ وہ أمین بول کر امید دلاۓ یا کچھ اور کہے۔ دفتر سے باہر نکلتے ہوۓ اس نے اپنے ابا سے کہا کہ ابا میں طایا کی طرف رات نہیں رکنا چاہتی ہم أج ہی واپس گاؤں چلتے ہیں۔ ابھی تو گاؤں کی طرف جانے والی بس بھی نکل چکی ہے تو فکر نہ کر میری دھی تیرے طایا کی بیٹی تیری ہم عمر ہے تو اسکے کمرے میں رہ لیو تیرا دل بھی لگا رہے گا ابا نے بیٹی کو تسلی دیتے ہوۓ کہا۔ بڑی بیٹی طایا کی بیٹی کے کمرے میں داخل ہوئ تو وہ نیل فائلرکی مدد سے ناخنوں کی تراش خراش میں مصروف تھی۔ دونوں نے ہی ابتدائ سلام دعا کے علاوہ ایک دوسرے کو مزید بلانے کی زحمت نہ کی۔ پھر طایا کی بیٹی نے رات کو اپنی الماری میں سے کپڑے نکالتے ہوۓبڑی بیٹی کو مخاطب کیا جو بظاہر تو کتاب پڑھ رہی تھی مگر موقع ملتے ہی چور اکھیؤں سے طایا کی بیٹی کی طرف بھی ایک جھاتی مار ہی لیتی تھی۔ کیا دیکھ رہی ہو چپکے چپکے؟ تمہارے پاس یہ کمرہ، یہ دولت، یہ قیمتی سازوسامان اور مہنگے کپڑے نہیں ہیں؟ طایا کی بیٹی سامنے والی کو بولنے کا موقع دیے بغیر کیہ رہی تھی۔ مگر تمہارے پاس اور بہت کچھ نایاب ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ میرے ماں باپ مجھ سے محبت تو کرتے ہیں مگر انھوں نے کبھی بھی مجھ پر یقین کرتے ہوۓ مجھے خوداعتمادی کی سیڑھی پر نہیں چڑھنے دیا۔ میں اپنی گیارویں جماعت میں ایک مضمون پاس نہ کر سکی تو ابا نے مزید أگے پڑھنے ہی نہیں دیا بلکہ تب سے مجھے رشتے والی أنٹیؤں کے سامنےکسی بکاؤ چیز کی طرح پیش کرنے لگے۔ اب اگلے ہفتے شادی ہے میری؛ تم ضرور أنا، وہ نم أنکھ کناروں کو صاف کرتے ہوۓ بول رہی تھی۔
تم خوش قسمت ہو کیونکہ تمہارے پاس میرے جیسی قید کی زندگی نہیں ہے، تم اپنے فیصلے کر سکتی ہو، تمہارا باپ تمہیں ہر جگہ ساتھ لے کر چلتا ہے تمہارے لیے راہیں ہموار کرتا ہے،اسکے باوجود کہ سیدھا سادہ ہے عام الفاظ میں پینڈو ہے مگر یقین جانو وہ ارمانوں کا قاتل نہیں ہے ، وہ خوابوں کی تعبیر کے لیے منزل تک رسائ ممکن کرواتا ہے۔ وہ خود کو مٹا کر تمہیں أگے بڑھانا چاہتا ہے۔
He Is a super man.
تعیناتی کے احکامات وصول کرنے کہ بعد أج وہ اپنے دفتر میں بیٹھی اپنی ذاتی ڈأئری پر کچھ یادیں قلم بند کر رہی تھی۔ وہ أج جو کچھ بھی تھی اپنے اس پینڈو باپ کی وجہ سے تھی۔
اپنے ہاتھوں سے اپنے باپ کی شکل کو سکیچ کی صورت میں ایک پوسٹرڈ پر اتارنے کے بعد وہ نیچے یہ لائن لکھ رہی تھی
You are really such a super man baba!
Don’t underestimate paindoos!
Paindoos can do everything!
& proud to be paindo!
یہ تین لائنیں لکھ کر بڑی بیٹی نے پوسٹ اپنی وال پر شئیر کر دی۔