کچھ عرصہ قبل میں ایک نجی ٹی وی چینل کا ایک منفرد مزاحیہ پروگرام دیکھ رہا تھا جس کی میزبانی آفتاب اقبال کرتے ہیں۔ اس وقت پروگرام میں دوستی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی جس میں آفتاب صاحب کے منہ سے ایک فقرہ سننے کو ملا کہ ایک اچھا کالم نگار اپنے دوست ضائع کر لیتا ہے اپنا فقرہ ضائع نہیں کرتا ۔ بات تو سچ تھی کالم نگار جب سچ لکھتا ہے تو بہت سے لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں
، سرکاری محکموں کی کرپشن کے بارے میں لکھتا ہے تو پورے کا پورا محکمہ اس کے خلاف ہوجاتا ہے، جب آپ کسی کی شخصی بدعنوانی کے بارے میں لکھتے ہیں تو وہ شخص آپ کا بدترین مخالف بن جاتا ہے لیکن جب آپ یہاں دوستوں کی بات کریں تو پھر پریشانی ہوتی ہے کہ دوست بھی دشمن بن جاتے ہیں ایسا واقع ہی ہوتاہے ہمارے بہت سے دوست ہمارے فقروں کی وجہ سے ہمارے دشمن بنے بیٹھے ہیں
۔ یہاں اگر ممکن ہوتا تو میں اپنے ان دوستوں کی پوری فہرست جاری کر دیتا جو اب مجھ سے ناراض ہیں۔ یہ ہم لکھاریوں کے ساتھ مسئلہ رہتا ہے کہ ہمارے دوست اکثر ہم سے ناراض رہتے ہیں۔ اس پروگرام میں آفتاب صاحب نے ایک اور بات بھی کی کہ میرے صرف دس سے بارہ دوست ہیں ۔ میں نے جب اس جملے کو سنا تو سوچنے پر مجبور ہوگیا ایک شخص جو اتنے عرصے سے ایک شعبہ سے وابستہ ہے اور اس شعبہ سے ہٹ کر مختلف اداروں میں پڑھتا رہاہو ، اس کا بچپن بھی کہیں نہ کہیں گزرا ہوگا لیکن اس کے صرف دس بارہ دوست ہیں ۔ یہ سب سوچ کر میں نے اپنے ارگرد دیکھا تو اپنی چوبیس سالوں پر محیط اس زندگی میں صرف ایک دو دوستوں کو ہی پایا اور وہ دو دوست بھی مجھ سے ناراض ہیں ۔ شائد ناراضی کی وجہ میری طرف سے ہی ہو لیکن ہم ناراض ضرور ہیں۔ اسی سے یاد آےا چار سال قبل حلقہ ارباب ذوق چیچاوطنی کے ہفتہ وار اجلاس میں میں نے اپنی غزل تنقید کے لیے پیش کی اور اس غزل کا مقطع کچھ یوں تھا۔
آئنہ دل کا چمکتا ہے محبت سے اویس
مہرباں ہو کے اگر ہاتھ ملائے کوئی
جب غزل تنقید کے لیے پیش کر چکا تو حسب روایت اس پر شرکائ تنقید کرنے لگے تب چیچہ وطنی ہی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر جناب عدنان بشیر صاحب نے فراز کا شعر پڑھا،
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
یہ شعر پڑھ کر عدنان صاحب کہنے لگے اب شائد نوجوان شاعر کو سمجھ آجائے کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا ، کچھ دوست ہاتھ ملا کر لوٹ بھی لیتے ہیں ، تب یہ تنقید مجھ پر گراں گزر رہی تھی ، شائد اٹھارہ سال کی عمر میں میں عام نوجوانوں کی طرح اپنی سوچ میں پختگی نہیں رکھتا تھا۔ اسی لیے عدنان صاحب کی طرف سے کی جانے والی تنقید مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھی لیکن اب جا کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عدنان صاحب سہی کہتے تھے کہ پتر دوستی سوچ سمجھ کر کرنا ورنہ لٹ جاؤ گے ۔ حضرت علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ سچا دوست کونسا ہوتا ہے ؟ جواب آیا کہ جو شخص تمھارے غصے کو برداشت کر لے اور ثابت قدم رہے وہ تمھارا سچا دوست ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد ۖ نے فرمایا کہ بدنصیب ہے وہ جو اپنے اس دوست کو کھو دے جو دوست اپنے وجود سے زیادہ اس کا احساس کرے۔ محبت اور دوستی یہ دو چیزیں ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہیں مگر ایک چیز ان دونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے اور وہ ہے غلط فہمی۔ ان سب اقوال کی روشنی میں دیکھیں اور پرکھیں کے آپ کے مخلص دوست کونسے ہیں اور ان کی قدر کرنا شروع کر دیں ۔ بات پھر وہی آجاتی ہے کہ ہم کالم نگاروں کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ ہم زیادہ دوستیاں پال سکیں بلکہ اگر کوئی دوست بن بھی جائے تو ایسا نظام بن جاتا ہے کہ ہمارے منہ سے ادھر کوئی فقرہ نکلا ادھر وہ دوست ہم سے ناراض ہوگیا۔ لیکن دوست بناتے ہوئے اتنا خیال بھی رکھیں کہ وہ دوستی کے اصولوں پر پورا بھی اترتا ہو تاکہ بعد میں یہ نہ ہو کہ وہی دوست آپ کا دشمن بن جائے اور جو دوست دشمن بن جائے اس سے زیادہ خطرناک دشمن کوئی نہیں ہوتا کیونکہ آپ کے تمام راز اس کے پاس ہوتے ہیں ۔ میرے استاد عرفان علی فانی صاحب اکثر مجھ سے کہتے کہ ہمارے راستوں میں پیش آنے والے تمام مسائل ہمارے دوستوں کے کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ اس لیے میرا آپ کے لئے یہی مشورہ ہے کہ دوست بناتے وقت خیال کریں ، نئے بننے والے دوست کو بھی بتائیں اور خود بھی یہ بات سمجھیں کہ آیا آپ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چل بھی سکتے ہیں یا نہیں کیوں کہ بعد میں ایسے مسائل پیدا ہوجائیں جو حل کرنا مشکل ہوں تو وہ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اور آخر میں میرے ناراض دوستوں کے لیے وسیم بریلوی کا یہ شعر پیش خدمت ہے کہ
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجیے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ